پار کھی
بہت جلد سارا گھرانہ ستارہ کی دانشمندی اور سلیقے کا قائل ہو گیا . اسے کاروباری گفتگو میں شریک کیا جانے لگا . حدید اگر سچا پارکھی تھا ٹوہ وہ بھی کاروباری نزاکتوں کو خوب سمجھتی تھی . اس نے زیور بنانے والے کاریگروں کی نگرانی شروع کر دی . وہ نئے نئے باریک اور انتہائی خوبصورت زیور بنواتی .
وہ ماں بننے والی تھی . اسکی بے چینی دیکھتے ہوئے حدید کا دل چاہتا اس کو کرگت لے جاۓ . لیکن وہ تو جیسے ٹھانے بیٹھی تھی کہ ادھر سے ہی پیغام ائے گا تو ہی وہ ادھر کا رخ کرے گی . ورنہ سب کچھ اپنے کلیجے پر سہ لے گی . منہ سے اہ نکالے بغیر . وہاں سے پیغام کیسے آتا . جن مجرموں کو دیس نکالا ملتا ہے ان کو پیام نہیں ملتے . ان کے دیس کے پرندے بھی ان حرماں نصیب نصیب مجرموں کے گاؤں کی طرف اڑانیں نہیں بھرتے . دریا اپنے پانیوں کی پیٹھ ان کی طرف کر لیتے ہیں اور ہوائیں خاموش تماشائی رہتی ہیں . وہ نہ ادھر کی پیامبر ہوتی ہیں ' نہ ادھر کی ... ستارہ کے پاس کوئی پیام کیسے آتا ؟
گزرتے وقت نے ایشان اور یشب سے ان کے باغ کو سجا دیا . ان کی بے ساختہ شرارتوں پر ستارہ ہنس پڑتی تھی . لیکن حدید کی باتوں پر کھلکھلانا اسے ابھی بھی نہیں آیا تھا . حدید کی باتیں ' اسکی محبت کے عطر سے بھیگی ہوئی نظریں اسکو کتنا گدگدا تی تھیں . یہ تو بس وہی جانتی تھی . ان کا رشتہ پرت در پرت نجانے کتنے بھید بھرے لحافوں میں لپٹا ہوا تھا .
" اوہ ! میرے خدا ... ایک اور بیٹی ...نذر تو مجھے چھوڑ دے گا . " زولفیہ " نذر کی بیوی زچگی کی تکلیف بھول کر خوف سے کانپنے لگی تھی . دائی نے نہلا کر بچی کو گرم کپڑے میں لپیٹ کر ادینہ کی گود میں دے دیا تھا . زلفیہ کو تو کانپ کانپ پر بخار ہو گیا تھا .
"نذر! دیکھو کیسی پیاری ہے تمہاری بیٹی ."
" بیٹی ! پھر بیٹی ... تیسری بیٹی ؟" وہ آگ بگولا ہو کر چلایا .
" نذر ! زلفیہ کی طبیعت بہت خراب ہے . تم خاموش ہو جاؤ ." ادینہ نے روتی ہوئی بچی کو سینے میں چھپا کر کہا . لیکن نذر خاموش کیسے ہو جاتا . وہ چلاتا رہا . چیزیں پٹختا ہوا ' پاگلوں کی طرح . اس کا بس نہیں چلتا تھا کے گھر کو آگ لگا دے . دونوں بڑی بچیاں ساشا اور گوشا ایک دوسرے کے ساتھ لپٹی روتی رہیں .
" ماں !بابا بہت غصّے میں ہیں ." گوشہ نے ماں کے پلنگ کا پایا پکڑ لیا تھا .
" ہاں ! وہ ٹھیک ہو جایں گے ." زلفیہ نے اس سے زیادہ خود کو دلاسا دیا . لیکن اس کو آنے والی رات کی ہولناکی کی خبر نہ تھی . وہ اٹھ بیٹھی تھی . اور توشہ کو گود میں لے کر اس کے نقوش کو چھو چھو کر محسوس کر رہی تھی . اس کے ننھے سے دھانے کو چوم کر وہ مسکرائی . اور گوشہ اور ساشا کو اس کے ہونٹ پر موجود تل دکھانے لگی . ادینہ نے اپنے آنسو چھپا لئے . اسکو کسی اور کے ہونٹ کا تل یاد آ گیا تھا . ایسا لگا جیسے ستارہ نے اس گھر میں دوبارہ جنم لیا ہو . وہ گہری سانسوں میں اپنا دکھ چھپائے گھر کو سنوارنے میں لگی ہوئی تھی .
" نجانے کیسی ہو گی میری ستارہ . میری بچی . چڑیو! میری ستارہ کو میرا پیغام دے دینا ." ادینہ نے ان کے آنجورے بھرتے ہوئے کہا .
Khan sss
29-Nov-2021 10:36 AM
Good
Reply